یہ ہفتےکا دن تھا ، جب 21 مئی، 2016 کو پاکستان کے صوبے بلوچستان میں افغان طالبان کے سربراہ اختر منصور نے سڑک کے کنارے ڈھابے پر دوپہر کا کھانا ختم کیا اور پھر صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی جانب گامزن سفر ہوئے۔ سفر کے دوران انکی سفید ٹیوٹا کرولا گاڑی امریکی فوج کے ریپر ڈرون سے فائر ہونے والے 2 میزائلوں کا نشانہ بنی اور تباہی سے مسخ ہوکر دھاتی ٹکرے میں تبدیل ہوگئی۔
اختر منصور کی ہلاکت ایک لمحہ کے اندر واقع ہوئی، انکی موت اب افغانستان میں 20 سالہ امریکی بدقسمتی کا پیغام ہے لیکن گاڑی کی مسخ شدہ باقیات میں سے انکا چمک دار سبز پلاسٹک کارڈ بچ گیا۔ یہ پاکستان کے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کا جاری کردہ قومی شناختی کارڈ تھا جس میں اختر منصور کی شناخت پاکستانی شہری محمد ولی کے نام سے درج تھی۔
پاکستان میں طالبان کے سربراہ کے پاس مصدقہ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کی موجودگی کافی شرمندگی کا باعث تھی۔ اس کے جواب میں حکومت نے شہریوں کی شناخت کی دوبارہ تصدیقی مہم کا آغاز کیا تاکہ شہریوں کے روپ میں موجود غیرملکیوں کو نشاندہی کرکے انہیں نکالا جائے اور اس طرح 18 کروڑ افراد کو مجبور کیا کہ وہ ثابت کریں کہ وہ پاکستانی ہیں ۔
اس موسم گرما میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ڈرامائی پس منظر میں، گلزار بی بی کو نادرا سے ایک خط موصول ہوا جس میں انہیں آگاہ کیا گیا کہ ان کا نادرا کارڈ ‘ڈیجیٹل طور پر ضبط’ کیا جاچکا ہے۔ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوا لیکن اس فیصلے سے انکی زندگی تلپٹ ہوکر رہ گئی ہے اور آنے والے سالوں میں وہ خوف کی زندگی بسر کرنے لگیں گی۔
درمیانی عمر، 9 بچوں کی والدہ، غم و غصے بھری آواز میں اپنی داستان سنا رہی تھیں۔ گلزار بی بی پاکستانی دارالحکومت ، اسلام آباد میں 40 سال سے غیرروایتی طور پر آباد ہیں ۔ وہ مون سون کا سیزن قرآنی آیات پڑھ کر گزاراکرتی ہیں اور دعا کرتی ہیں کہ سیوریج لائن میں پھنسے کچرے کے باعث پانی بھرنے سے کہیں ان کا گھر نہ بہہ جائے ۔ باقی سال، اسلام آباد کی میونسپل انتظامیہ سے بے دخلی کی دھمکیوں سے نبرد آزما رہتی ہیں اور انکے گھر کی مسماری کے لئے بھیجے جانے والے بلڈوزر پر انکی نگاہیں جمی رہتی ہیں۔
گلزار کے لئے زندگی ویسے ہی مشکل تھی لیکن نادرا کی جانب سے ان کے شناختی کارڈ کی منسوخی نے ان کے لئے اس حد تک مشکلات پیدا کردیں کہ ان کے لئے اپنے روزمرہ زندگی کے امور کی انجام دہی بھی ناممکن ہوگئی۔ مثال کے طور پر، انکے موبائل فون نے کام کرنا بند کردیا، وہ فلاحی پروگرامز کی رسائی سے محروم ہوگئیں جن میں روزمرہ کا راشن، سرکاری نرخوں پر سستی ادویات اور بچوں کے لئے مفت اسکول کی سہولت شامل ہیں۔
جلد ہی، انکی سب سے بڑی بیٹی، ریزہ گل کو احساس ہوا کہ اس کا بھی شناختی کارڈ بلاک ہوچکا ہے جبکہ لاہور میں انکے بھائی اور تین بیٹوں کے شناختی کارڈز بھی بلاک ہوچکے ہیں۔ نادرا سے باضابطہ معلوم ہوا کہ انکے کارڈ ز’ڈیجیٹل طور پر ضبط’ کئے جاچکے ہیں جس کے بعد لاہور میں انکے بھائی اور انکے تینوں بیٹے سمیت پوری فیملی کی زندگیاں تباہ ہوگئیں۔
اس مکتوب میں گلزار بی بی کو ہدایت کی گئی کہ وہ تین میل دور سرکاری دفتر آئیں، وہ روانہ ہونے لگیں۔ ایک بیوہ عورت ، جو امیروں کے گھروں کی صفائی کرکے بمشکل اپنا گزر بسر کرتی ہے، صحت کے پرانے مسائل سے نبردآزما ہے ، سالوں پہلے انہیں دو کتوں نے کاٹ لیا تھا جس کے باعث انفیکشن شدید ہوگیا، زخم خراب ہوا اور بیماری سے وہ کمزور ہوگئیں۔ ایسی حالت میں اب انہیں نادراآفس جانا تھا۔ انہوں نے بتایا،”اب میں دو قدم چلتی ہوں اور سانس پھولنے لگتا ہے۔”
لیکن پھر بھی انہیں جانا پڑا۔
صرف گلزار بی بی کے حالات ہی غیرمعمولی نہ تھے کیونکہ ستمبر 2013 سے نادرا کی جانب سے اوسطاَ روزانہ 225 کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز (سی این آئی سی) کو بلاک کیا گیا اور اس طرح مجموعی طور پر 6 لاکھ 60 ہزار زندگیوں کو درہم برہم کردیاگیا ۔ بہت سے افراد کے سی این آئی سی بحال ہوگئے لیکن مارچ 2020 تک ڈیڑھ لاکھ افراد کی شناخت معطل ہوگئی۔ گزشتہ دو دہائیوں میں اس چھوٹے سے پلاسٹک کارڈ سے پاکستان میں زندگی کا ہر پہلو پنہاں کیا گیا، کیونکہ یہ شہریت کی سرکاری پہچان ہے اور نادرا کارڈ کی ضبطی پر اسے رکھنے والے افراد کسی بھی طرح سے کسی ریاست کے شہری نہیں رہتے۔
سال 2000 میں قائم ، نادرا بین الاقوامی سطح پر ڈیزائن اور قومی ڈیٹا بیس برقرار رکھنے کی وجہ سے مشہور ہے جس میں 98 فیصد آبادی کی ذاتی اور بایو میٹرک معلومات ہیں۔ عالمی بینک اسے ملک میں درست شناخت کی معلومات کا واحد ادارہ قرار دے چکا ہے۔ یہ ادارہ وزارت داخلہ کے ماتحت آتا ہے لیکن یہ آزادانہ کاروباری ادارہ کے طور پر کام کرتا ہے ۔ یہ بنگلہ دیش، کینیا، نائیجیریا، سری لنکا اور جنوبی سوڈان میں ایسے پروگرامز کے نفاذ میں بھی مدد فراہم کرچکا ہے۔
اگرچہ ، ہزاروں پاکستانی تصدیق کراسکتے ہیں تاہم بغیر روک ٹوک کے ڈیجیٹائزیشن سے لاحق خطرات کی نادرا ایک بہترین مثال ہے، اور یہ کہ کس طرح سے مرکزی ڈیٹا بیس کو لوگوں کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے ، کون ریاست کے مثالی شہری کے معیار پر پورا نہیں اترتا، خاص طور پر یہ خواتین، ملازمت پیشہ طبقے کے افراد، نسلی، صنفی اور مذہبی اقلیتوں کے لئے نقصان دہ ہے، اور ایسے نظام کس بھی طرح گلزار بی بی جیسے افراد کو معاشرے کے مزید پسماندہ طبقوں میں دھکیل سکتے ہیں۔ نادرا کی جانب سے جمع شدہ معلومات ، اسکا حیران کن حجم اور انکی بڑھتی ہوئی تعداد قانونی تحفظ کی غیرموجودگی میں برقرار رکھی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ جاننے کا کوئی طریقہ ہی نہیں کہ یہ معلومات کیسے استعمال کی گئیں ، اور آگے کیسے استعمال کی جائیں گی ، یا مستقبل میں ان معلومات کا کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔
بایو میٹرکس ۔ یہ یونانی زبان کی اسطلاح ‘بایوز’ (زندگی) اور ‘میٹرون’ (پیمائش) سے نکلی ہے جس نے ہزاروں سال سے شناختی نظام کا حصہ تشکیل دیا ہے۔ قدیم اشوریہ دور میں بھی موجود شواہد سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ ادائیگی کی رسیدوں سے لیکر چینی طلاق کے ریکارڈز پر سیاہی کے نشانات تھے۔ جنوبی ایشیاء میں اس طرح کی نجی معلومات کا حصول اور رجحان ایک طویل عرصے تک جرم اور ریاستی کنٹرول کے تصورات سے منسلک رہا ہے۔
سال 1858 میں، مغربی بنگال میں دریائے ہوگلی میں ایک انگریز سول سرونٹ ویلیم جیمس ہرشل نے مقامی ٹھیکے دار راجیادھر کونائی کو حکم دیا کہ کاغذ کے ٹکڑے پر ہتھیلی کے نشان کی مہر لگائے تاکہ وہ اس معاہدے کو ناقابل متنازع بنانے کے لئے عمل درآمد کریں۔
انکی خواہش تھی کہ کس طرح راجیادھر کونائی خوف زدہ ہو جائے اور اس طرح اپنی بات سے پیچھے ہٹ کر اسے تسلیم کرنے سے ہی انکار نہ کردے۔ یہ کوئی بالکل جدت نہ تھی لیکن ہرشل کو انسانی ہاتھ کے نقش کے حصول کا انتہائی منفرد خیال بھاگیا۔ ان کے دور میں پہلی بار سرکاری طور پر اس کا جدید استعمال ہے۔ ہرشل جیسے برطانوی راج کے منتظمین کے لئے جنوبی ایشیاء کی مقامی آبادی مجموعی طور پر مبہم تھی۔ نو آبادیاتی دور میں ایک صاحب علم شخص کے طور پر اسکی ذاتی شناخت الگ تھی۔ ویلیم جیمس ہرشل کو یقین تھا کہ ہر شخص کی منفرد بایومیٹرک معلومات سے نوآبادیاتی حکمرانوں کو انفرادی سطح پر لوگوں کو تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
سینگوپتا اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ انگلیوں کے نقش لینے کا طریقہ سالن(curry) کے پوڈر جیسا ہے۔”انڈیا میں تیارشدہ ہو لیکن مقامی نہیں۔ برطانیہ میں ہو لیکن برطانیہ میں تیار شدہ نہ ہو۔۔۔ یہ برطانوی دور کا حصہ بنا اور پھر آخرکار بتدریج دنیا بھر میں اس کا استعمال پھیل گیا، یہ سادہ امتیاز غیرواضح ہونے لگا جو ہم گھر اور سلطنت کے درمیان اکثر روا رکھتے ہیں۔ 1879 تک، پوری بنگال پولیس فورس نے انگلیوں کے نقش لینے شروع کردیئے تھے۔ چار سال بعد لندن میٹروپولیٹن پولیس نے بھی ان کا استعمال شروع کیا۔
بائیو میٹرکس کی تاریخ میں سنگ میل
ایک دہائی سے بھی زائد عرصہ گزرنے کے بعد گلزار بی بی اسلام آباد کے مرکزی کاروباری ضلع میں اپنے نادرا کارڈ کی بحالی کے لئے نادرا کے نئے افتتاح شدہ میگا سینٹر کے باہر قطار میں کھڑی تھیں۔
وہ برصغیر میں شناخت کی دھندلی تاریخ سے آگاہ نہ تھیں لیکن وہ اپنے آپ کو مجرم کی طرح تصور کرنے سے خود کو روک نہیں پا رہی تھیں۔ نہ صرف بلاک شدہ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ سے اس متاثرہ شخص پر گہرے مادی اثرات پڑتے ہیں بلکہ اس پر شدید نفسیاتی اثر بھی پڑتا ہے، کہ آپ نے ایسا کیا کام کیا کہ آپ کا کارڈ بلاک ہوگیا؟ اسکے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
یہ بے چینی خاص طور پر پشتون افراد جیسے گلزار بی بی میں ہے۔ سال 2017 میں بلاک شدہ سی این آئی سیز کی اکثریت یعنی 63 فیصد پشتونوں پر مشتمل رہی ، حالانکہ وہ پاکستان کی آبادی کا محض 15 فیصد ہیں۔ تاریخی طور پر یہ جنوبی افغانستان اور شمال مغربی پاکستان میں رہے ہیں۔ یہ علاقہ طویل جنگ سے متاثر ہے اور انہی وجوہات کی وجہ سے لوگوں کی نقل مکانی کی خبریں ایک بار پھر عالمی سطح پر اپنی جگہ بنا رہی ہیں۔ یہ غیر واضح ہے کہ بطور پناہ گزیں آپ کے کیا قانونی حقوق ہیں، اگر نادرا آپ کا سی این آئی سی بلاک کردیتا ہے، لیکن بہت سے پاکستانی پشتونوں کو پناہ گزیں بننے اور انہیں جبری طور پر واپس افغانستان بھیجے جانے کا خدشہ ہے۔
نادرا آفس میں گلزار بی بی کو علم ہوا کہ ان کا شناختی کارڈ کیوں بلاک ہوا تھا۔ نادرا کا ڈیٹا بیس خاندان کے سربراہ کے نیٹ ورک کے طور پر ترتیب دیا جاتا ہے جس میں ہر رجسٹرڈ گھرانے کا ایک مرد سربراہ متعین ہوتا ہے۔ ان کے ایک بھائی کا سی این آئی سی گم ہوگیا تھا اور ایک اجنبی شخص نے اپنے طور پر اسکے غلط استعمال کی کوشش کی لیکن سسٹم نے اسکی نشاندہی کردی اور اس سے منسلک تمام دیگر آئی ڈی کارڈز کو بلاک کردیا گیا۔
جب یہ مسئلہ حل کرنے کا معاملہ آیا تو نادرا حکام انتہائی غیرمعاون رہے۔ گلزار بی بی کو کچھ ثبوت پیش کرنے پڑے کہ انکا خاندان 1978 سے قبل پاکستان میں رہائشی ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ سال 1978 میں پاکستان نے مشرقی پاکستان سے نئی بننے والی ریاست بنگلہ دیش سے متعلق اپنی شہریت کے قانون میں تبدیلی کی ، اور اب پرانے وفات شدہ والدین کی دستاویزات کی نقول کارآمد نہ ہوں گی۔ شائد کسی طرح اراضی کا ریکارڈ یا 40 سال پرانے کرائے نامہ کا معاہدہ کارآمد ہوگا؟
گلزار بی بی کا دل ڈوب گیا۔ اگرچہ اب وہ اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں اور خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے 125 میل دور مقام پر بڑی ہوئیں۔ انہوں نے اپنا کیس نمٹانے والے شخص کو بتایا،”میرے والدین، دادا ، دادی اور چچا سب وفات پاچکے ہیں۔ انکے نام پر اب واحد اراضی انکی قبریں ہیں جہاں وہ دفن ہیں۔”
نادرا کے اہلکار نے انکی بات کو کوئی اہمیت نہ دی۔ اگر گلزار بی بی اپنا سی این آئی سی بحال کرانے کی خواہش مند ہیں تو ان کا واپس پشاور جانا ہی واحد حل تھا۔
گلزار بی بی کو اپنی شناخت معطل ہونے کی فکر صرف اپنی ذات تک محدود نہ تھی۔ انہوں نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا،”میں بوڑھی عورت ہوں، میں جلد ہی مرجاؤں گی۔”انکی سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ اگر وہ یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے حرکت میں نہ آئی تو پھر انکے بچوں کو مزید مشکلات جھیلنی پڑیں گی ۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کسی خیال کے بغیر وہ بس میں سوار ہوگئیں اور ان دستاویزات کی تلاش میں نکل پڑیں جن میں یہ ثابت ہوسکے کہ ان کا تعلق اسی ملک سے ہے جہاں انہوں نے اپنی ساری زندگی بسر کی۔
جنوبی ایشیا میں تقسیم کے بعد انفرادی شناخت کا نوآبادیاتی طریقہ مدہم پڑنے کے بجائے بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ برطانوی سلطنت کے زوال ، خود مختار بھارت کی تخلیق اور 1947 میں نئی پاکستانی ریاست کا قیام خون ریزی اور ہنگامہ آرائیوں سے بھرپور ہے۔ یہ انسانی تاریخ میں ایک بڑی ہجرت ہے جب تقریباَ ایک کروڑ افراد نے اچانک بننے والی سرحدوں کی دوسری جانب ہجرت کی اور آج بھی بدستور یہ دنیا کی عظیم ترین ہجرتوں میں شمار ہوتی ہے۔ بھارتی کون تھے؟ پاکستانی کون تھے؟ پناہ گزیں کون تھے جنہیں ریاستی امداد کی ضرورت تھی؟ کیا کسی بھی جانب کی حکومت یہ جاننے کی خواہش مند ہے۔
پاکستان میں شہریت کا قانون سال 1951 میں قائم ہوا ۔ اس سال کے بعد پیدا ہونے والے افراد، اور وہ افراد جنہوں نے 1952 سے قبل یہاں ہجرت کی اور دیگر ایسے افراد جن کے والدین میں سے کم از کم کوئی ایک پاکستانی ہو، وہ افراد پاکستانی شہری شمار ہوں گے۔ یہی سوالات سال 1971 میں بھی ابھرے جب ملک کے مشرقی حصہ نے آزادی حاصل کی اور بنگلہ دیش بن گیا۔
اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو جو سوشلسٹ وعدے ‘ روٹی کپڑا مکان’ کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئے۔ اس وقت قومی سطح پر عوام کا ڈیٹا جمع کرنے کا آغاز ہوا۔ لوگوں کے مکمل اعداد و شمار سے متعلق ڈیٹا بیس کی عدم موجودگی پر بھٹو صاحب نے واشگاف انداز سے اعلان کیا، “ملک مکمل تاریکی میں چل رہا ہے۔”
پیچھے نظر ڈالیں تو ہم پہلے سے ہی کشیدگی کی بنیادی کڑیاں محسوس کرسکتے ہیں۔ کیا حکومت نے یہ جاننا چاہا کہ آپ کون تھے تاکہ وہ آپ کو فلاحی سہولیات فراہم کرسکیں یا پھر اس نے محض یہ جاننا چاہا کہ آپ کون نہیں ؟ ایک بھارتی، ایک بنگلادیشی یا کسی بظاہر پسماندہ طبقے کا کوئی رکن ہیں۔ فلاح اور نگرانی کو باہمی طور پر خاص حوصلہ افزائی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ان گزرتی دہائیوں میں خاص طور پر 1980 کی دہائی میں جب جب لاکھوں پناہ گزینوں نے افغانستان پر سویت جارحیت پر حفاظت کے لئے پاکستان میں پناہ لی تو ان کے درمیان خلا وسیع ہوگیا۔
گلزار بی بی سال 1973 میں چھوٹی سی لڑکی تھی جب پاکستان نے پہلی بار تصویری شناختی کارڈ کا آغاز کیا۔ (سب سے پہلا شناختی کارڈ بھٹو صاحب کو بذات خود جاری ہوا۔) وہ پشاور کے ایک گھر میں رہتی تھیں جہاں انکے دادا، چچا، چچیاں، بھتیجے و بھتیجوں کی بڑی تعداد تھی۔ یہ مرد قصائی کے طور پر کام کرتے تھے جبکہ عورتیں گھروں پر رہتی تھیں۔
ان کا خاندان دہائیوں قبل وہاں سے نقل مکانی کرچکا تھا ۔ اسلام آباد آکر نادرا میں اپنی شناخت ثابت کرنے کے مشن پر گلزار بی بی بس سے اتریں۔ وہ سیدھی پرانے گھر گئیں اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ جب موجودہ مالکان سے بات کی تو انہوں نے اپنے دادا، والد اور چچا کے نام دہرائے اور پوچھا کہ کیا کوئی نام سنا سنا لگ رہا ہے اور کیا یہاں نئے رہائشیوں کو یاد ہے کہ انہوں نے یہ گھر کس سے خریدا تھا؟
وہاں رہائشیوں نے بتایا تو گلزار بی بی کی جان میں جان آئی۔ وہ واپس اسلام آباد میں نادرا کے آفس پہنچی اور انہوں نے 1970 کی دہائی کی دستاویز انتقال (لینڈ ڈیڈ) دکھائی۔ یہ دیکھ کر نادرا حکام نے ناک بھوں چڑھائی اور انہیں بتایا کہ اس دستاویز کو مقامی پولیس اسٹیشن کے کسی سینئر پولیس افسر سے تصدیق کرانے کی ضرورت ہے، کوئی ایسا شخص ہو جو اس دستاویز اور بذات خود گلزار کی تصدیق کرسکے۔ وہ واپس پشاور آئیں، ان کی ایک دن کی مزید دیہاڑی ماری گئی ۔ مقامی پولیس اسٹیشن میں کسی نے بھی اس دستاویز پر دستخط نہیں کئے۔ پولیس اسٹیشن میں افسر نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا، “ہم آپ کو نہیں جانتے، تو آپ کی تصدیق کیسے کرسکتے ہیں؟”
گلزار بی بی وہاں کھڑی تھیں اور ہار ماننے والی تھیں کہ اچانک ذہن میں اس پولیس افسر کا نام یاد آیا جو انکے خاندان کی دکان پر آیا کرتا تھا جب وہ ننھی سی لڑکی تھیں۔ وہ افسر کافی عرصے پہلے ریٹائرڈ ہوچکا تھا لیکن اسٹیشن پر موجود عملے نے بتایا کہ وہ جانتے ہیں کہ اس افسر کی رہائش کدھر ہے۔ وہ پھر وہاں اسکے گھر چلی گئیں۔ اسکے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر چلی گئیں۔ انہوں نے اپنے دادا، والد اور چچا کے نام بتائے اور پوچھا کہ کیا آپ کو یہ یاد ہیں؟
وہاں بوڑھے آدمی نے غور سے گلزار بی بی کو دیکھا۔
اور کہا،”یقیناَ، میں جانتا ہوں۔ جب میں دکان جاتا تھا تو تم مجھے پتھر مارا کرتی تھیں۔ تم کتنی بڑی ہوگئی ہو!”
اگر آپکو علم ہو کہ آپکا نادرا کے سبز پلاسٹک کارڈ کے ہندسے کس طرح آپ سے متعلق کافی انکشافات کرسکتے ہیں۔
اس کے 13 ہندسوں کی سیریز امریکہ میں سوشل سیکیورٹی نمبر جیسی ہے۔ اس میں بہت سے انفرادی ہندسے آپکی ذاتی معلومات سامنے لاتے ہیں۔ پہلا ہندسہ آپکی پیدائش والے صوبے کی نشاندہی کرتا ہے، دوسرا ہندسہ صوبے میں ڈیویژن کو سامنے لاتا ہے اور اس طرح ہندسوں سے معلومات آگے بڑھتی ہے اور یہ آپکی یونین کونسل تک پہنچ جاتی ہے جو پاکستان میں سب سے چھوٹی ترین انتظامی اکائی ہے۔ آخری ہندسہ آپکی جنس واضح کرتا ہے۔
آپکی تصویر مونوکروم حالت میں دائیں جانب ہے اور اسکے نیچے آپکے دستخط ہوتے ہیں۔ بائیں طرف، اس میں چپ نصب ہوتی ہے اور اسکے پیچھے کیو آر کوڈ ہے۔ اسے سورج کی روشنی میں رکھیں تو بہت سے مناظر کی شبیہ چمک اٹھے گی ۔ اسکے کنارے پر پاکستان کا خاکہ اور آپکا اپنا چہرہ ہے۔ یہ کارڈ کئی تہوں میں طبع کیا جاتا ہے جس کی ہر تہہ پر اپنے سیکیورٹی فیچرز ہیں اور مجموعی طور پر 36 فیچرز ہیں جن میں مائیکروٹیکسٹ، ہولوگرامز اور خصوصی ڈیزائننگ اور قوس و قزح رنگ میں طباعت ہے۔ نادرا حکام کے مطابق یہ دنیا میں سب سے محفوظ ڈیجیٹل شناختی کارڈز میں شامل ہے۔
کارڈ کی مائیکروچپ میں اس کا ڈیٹا محفوظ ہوتا ہے جن کے ہمراہ آنکھ کی پتلی اور آپکی تمام انگلیوں کے فنگر پرنٹس ہیں۔ 18 کروڑ دیگر شہریوں کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ یہ معلومات اسلام آباد میں مرکزی ڈیٹا بیس میں بھی جمع کی جاتی ہے جسے نادرا ڈیٹا ویئر ہاؤس قرار دیتا ہے۔ سال 2018 کی عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق یہ ڈیٹا بیس کم از کم 336 سرکاری اور نجی خدمات سے منسلک ہے۔ اب تین سال بعد یہ تعداد کافی زیادہ بڑھنے کی توقع ہے۔
اگر آپ پاکستان میں اپنے موبائل فون کے لئے نئی سم خریدنے کسی اسٹور میں جاتے ہیں تو ممکنہ طور پر کچھ اس طرح پیش آیا جائے گا۔ سیلزمین آپ کو کہے گا کہ اپنا سی این آئی سی کارڈ ریڈر میں لگائیں، تو وہ کارڈ ریڈر بذات خود کارڈ کی تصدیق کردے گا جس کے بعد کارڈ کی بذات خود ڈیوائس سے توثیق ہوگی ۔ اس تبادلے کے ساتھ تعارفی مصافحہ کے بارے میں سوچیں جس میں کارڈ ریڈر آپکے انگوٹھے کو اسکین کرے گا اور کارڈ پر محفوظ پرنٹ کے ساتھ ملائے گا۔ اگر کسی وجہ سے یہ سسٹم آپکی معلومات کی تصدیق نہیں کرتا تو پھر آپ موبائل سم نہیں خرید سکتے، یا بینک اکاؤنٹ سے رسائی حاصل نہیں کرسکتے، یا سوشل سیکیورٹی حاصل نہیں کرسکتے، یا ووٹ نہیں دے سکتے۔
عام طور پر ڈیجیٹل بایو میٹرک شناخت تین مراحل پر مشتمل ہوتی ہے۔ اندراج، جس میں کسی شخص سے متعلق معلومات محفوظ ہوتی ہیں۔ تصدیق، جس میں شناخت کی تصدیق ہوتی ہے۔ اور اختیار، جس میں تصدیق کے بعد خدمات کا تعین کیا جاتا ہے ۔
1۔ اندراج: ہم آپ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
2۔ تصدیق: ہم کیسے مانیں کہ یہ آپ ہی ہیں؟
3۔ اختیار: آپ کس چیز کے حقدار ہیں؟
بایومیٹرک شناخت کے حامی اکثر اسکے استعمال کے لئے جعل سازی کی روک تھام بڑھانے کی وجہ بیان کرتے ہیں جس میں ڈیڑھ صدی قبل ہرشل کی دلیل کی یاد دہانی سامنے آتی ہے۔ تاہم، یہاں انتہائی کم شواہد ہیں جن سے یہ اشارہ ملے کہ ایسے نظام قابل ذکر انداز سے جعل سازی کو روکتے ہیں۔ پاکستان میں کسی بھی طرح کے دلائل دینے کے لئے ناکافی تحقیق ہے۔ لیکن عوام کے ذہن میں اسکے مثبت تاثر کی مستحکم گرفت ہے۔
ایک محقق حارث گزدار حکومت کے سماجی تحفظ پروگرامز پر کام کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، “یہ سوچنے کا ایک انداز ہے، یہ ممکنہ طور پر طاقتور نو آبادیاتی باقیات ہیں اور یہ پاکستان میں منفرد نہیں بلکہ یہ پاکستانی معاشرے کو پریشان کرتی ہے ، جس کا آغاز اشرافیہ کی جانب سے ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ لوگ موقع پرست ہیں، یہ جھوٹے اور چور ہیں، جب تک کہ آپ انہیں کنٹرول نہیں کرپاتے۔”
یہ جنوبی ایشیائی تناظر کے ساتھ انگریز فلسفی تھامس ہوبز کا نکتہ نظر ہے کہ دنیا کے اس خطے میں نہ صرف لوگ بے حسی میں ذاتی دلچسپی کا رجحان رکھتے ہیں بلکہ وہ دھوکا دہی میں ماہر اور تقریبا کسی بھی نظام یا حالت کے لئے توقع سے بڑھ کر تحائف کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ (شمالی بھارت اور پاکستانی جگاڑ کا تصور بالکل درست طور پر اس خصوصیت کا حوالہ دیتا ہے۔) اس لئے حارث گزدار کا کہنا ہے، کوئی بھی ایسی چیز جو خود کار ہوتی ہے اس سے اس سرکاری اہلکار کا اختیار کم ہوتا ہے اور وہ بہتر نظر آتی ہے۔
ڈیجیٹائزیشن سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے روانی، بحفاظت اور شکوک سے محفوظ کام ہوگا لیکن کبھی کبھار ہی اس انداز سے کام ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ روزمرہ زندگی کو نمایاں طور پر زیادہ خوف زدہ کرسکتی ہے، جبکہ نظام توقع کے مطابق کام نہیں کرتے۔ جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے، بعض اوقاتیہاں بجلی یا انٹرنیٹ کا مسئلہ ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ کارڈ ریڈرز مستقل کام نہیں کرسکتے۔ نادرا کے چپ والے کارڈز نسبتا زیادہ محفوظ ہیں۔ آپ کا بایومیٹرک ڈیٹا نیٹ ورک پر منتقل نہیں ہوتا، اس لئے اس میں اس طرح مداخلت بھی نہیں کی جاسکتی۔ تاہم، وہ آسانی سے درمیان میں موجود شخص کے حملوں کا نشانہ بن سکتا ہےجس میں مذموم مقاصد رکھنے والا فریق ڈیجیٹل گفتگو کے دو نکات کے درمیان خود ہی اندراج کرتا ہے جبکہ حقیقی شرکاء کو یقین ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے براہ راست اور محفوظ انداز سے بات کررہے ہیں جبکہ یہ تبادلہ گفتگو اصل میں اس مذموم حملہ آور کی جانب سے کنٹرول کیا جارہا ہوتا ہے۔
مزید برآں، لوگوں کی ایک قابل ذکر تعداد کے فنگر پرنٹس باآسانی نظر نہیں آتے۔ ان بیشتر افراد میں قابل ذکر طور پر مستری اور دیگر مزدوری کا کام کرنے والے شامل ہیں بلکہ ان میں بعض ایسے حجام، کمیوتھراپی کرانے والے مریض اور معمر افراد بھی موجود ہیں جن کی تصدیق کا عمل پیچیدگی اختیار کرلیتا ہے۔
چہرے کی شناخت بھی مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ جیسے ، بعض اوقات خود کار نظام میں چاہے دو الگ الگ افراد ہوں، خاص کر ان کا رنگ گہرا اور سیاہ ہو۔ حال ہی میں کراچی میں ایک پاکستانی بنگالی کا نادرا کے ساتھ سات سال پرانے تنازع پر جھگڑا ہوا جہاں اسکے سروس سینٹرز میں چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی موجود تھی۔ جب اس نے سی این آئی سی کے لئے سال 2013 میں رجوع کیا تو اس وقت اسکی تصویر لی گئی ۔ جب کارڈ سال 2014 میں وصول کیا گیا تو ایک اور تصویر لی گئی اور نادرا سسٹم نے تصدیق کردی کہ دونوں تصاویر میں ایک ہی شخص ہیں، حالانکہ ایسا نہ تھا۔ یہ معاملہ محتسب کے پاس گیا لیکن ابھی تک یہ معاملہ حل طلب ہے۔
اسکے وکیل نے کہا، “محتسب الجھن کا شکار تھا، اس نے ایسے پوچھا جیسے یہ کوئی لطیفہ ہو۔ کھلی آنکھ سے دیکھیں تو واضح نظر آتا ہے کہ یہ دو الگ افراد ہیں، لیکن نادرا حکام یہ ماننے کو تیار نہیں کہ انکی ٹیکنالوجی میں خرابی ہوسکتی ہے۔” اس شخص کے پاس ابھی تک فعال سی این آئی سی نہیں ہے۔
دنیا بھر میں شناخت کے منصوبوں کی تجاویز پر اکثر شدید مخالفت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے سال 2006 میں برطانوی پارلیمنٹ نے منصوبوں کا اعلان کیا لیکن وہ اس قدر متنازع ثابت ہوئے کہ پانچ سال کے اندر ہی انہیں منسوخ کرنا پڑا۔ بھارت میں متعدد حکومتیں متنازع شناختی نظام کے استعمال میں توسیع لائیں ، یہ آدھار کے نام سے مشہور ہے جس میں ایک ارب سے زائد بھارتیوں کے بایومیٹرکس اور ذاتی معلومات ہیں۔ حالانکہ سماجی کارکن، وکلاء، محقیقین اور سیاستدانوں سمیت معاشرے کے وسیع طبقوں نے اسکی مخالفت کی۔ سال 2000 میں جب نادرا قائم ہوا تو اس وقت اسکے خلاف کوئی منظم کاوش نہیں ہوئی۔
ایک وجہ یہ تھی کہ پاکستانی افراد قومی شناختی کارڈ کے تصور سے ہم آہنگ تھے۔ بہت سے افراد کے پاس کاغذی شکل کا 1973 کا ابتدائی شناختی کارڈ تھا۔ ایک وجہ یہ تھی کہ نادرا نے ایک خیال کے طور پر لوگوں کے خوابوں اور پاکستان کی خواہشات کو قبول کیا، لیکن وہ اس وقت بھی اسکے برعکس نظر آیا۔ بعض افراد نے سوچا کہ اس اقدام کی بدولت ریاست شہریوں کا زیادہ خیال رکھے گی ، جبکہ بعض کا خیال تھا کہ اس طرح سے مجرموں اور سماج دشمن عناصر سے نمٹا جائے گا۔ کچھ افراد نے ایک طاقتور ریاست کا تصور پسند کیا۔ بعض نے سوچا کہ اس سے ریاست کو تحفظ ملے گا۔ اور سب افراد زیادہ بہتر انداز سے فعال بیوروکریسی کے خیال پر متفق ہوئے۔
حارث گزدار نے یاد کرتے ہوئے بتایا، “زیادہ سے زیادہ لوگوں نے یہی کہا کہ یہ اضافی پریشانی ہے۔ ٹھیک ہے ، لیکن کم از کم یہ ایک بار کی پریشانی ہے۔”
سال 2016 میں اختر منصور کی ہلاکت پر نادرا کے طریقہ کار میں بڑے پیمانے پر تیزی سے سرکاری سطح پر محاسبہ کی آواز بلند ہوئی ۔ معروف سیاستداں فرحت اللہ بابر اس وقت پاکستان کے سینیٹ کے سینئر رکن تھے۔ انہوں نے بتایا، “ہم نے پارلیمنٹ میں یہ سوال اٹھایا۔ یہ شناختی کارڈ کس نے جاری کیا؟ کیا ریاست کسی طرح اس کام میں ملوث ہے؟”
بعد ازاں، انکوائری میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ اختر منصور سال 2005 سے پاکستانی کے طور پر موجود تھے۔ انہوں نے جائیداد خرید لی تھی اور باآسانی بیرون ملک سفر کرسکتے تھے۔ کیا نادرا کے اندر انکی ملی بھگت تھی یا پھر یہ محض نادرا کی نااہلی تھی؟ کیا اسکی کوئی حقیقی جوابدہی ہوگی؟ فرحت اللہ بابر نے بتایا، “حقیقی مسئلہ یہ تھا کہ کس نے انکی دستاویزات کی منظوری دی، لیکن اس معاملے کو اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔”
حتیٰ کے اس واقعے سے قبل ، نادرا کے ڈیٹا کی زیرزمین رسائی پورے ملک میں پھیل چکی ہے جن میں جعلی دستاویزات اور جعلی فیملی ٹری شامل ہیں۔ یہ مبینہ طور پر بینکوں کے جونیئر کلرکوں کی ملی بھگت سے ہوا جس میں نادرا کا فراہم کردہ تصدیقی سافٹ ویئر استعمال ہوا۔ فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ اختر منصور کی ہلاکت کے بعد یہ خیال پیدا ہوا کہ نادرا کی جانب سے یا اسکے سسٹم کے استعمال سے ممکنہ طور پر جعلی سازی میں سہولت فراہم کی جارہی ہے۔
انہوں نے مجھے بتایا، “(اس واقعے کے بعد) شکوک و شبہات ابھرے کہ اگر مخصوص ریاستی ادارے اپنے طور پر قومی شناختی کارڈ میں گڑبڑ کرسکتے ہیں، اور پھر نجی طور پر افراد بھی ایسا کرسکتے ہیں۔”
اس موسم گرما میں نادرا نے ہر رجسٹرڈ گھرانے کے سربراہ کو ٹیکسٹ میسج بھیجنے کا آغاز کیا جس میں ہر شخص کو اسکے اپنے شجرہ نسب سے تصدیق کرنے اور اس میں کسی نامعلوم اور اجنبی شخص کی شمولیت پر اطلاع کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اسکی عدم تعمیل پر نتیجہ انکے سی این آئی سی بلاک کیا جاسکتا ہے۔
یہ وہی وقت تھا جب گلزار بی بی کے سی این آئی سی نے کام کرنا بند کردیا۔ اگر آپ ان سے وہ سال پوچھیں جب ان کا سی این آئی سی بلاک ہوا تو انہیں اسکے بجائے ایک نام یاد آتا ہے۔ انہوں نے بتایا، “وہ چوہدری نثار کا دور تھا۔” انہوں نے 2013 سے 2017 کے درمیان اس وقت کے پاکستانی وزیر داخلہ کا حوالہ دیا ۔ چوہدری نثار ایک متنازع شخصیت ہیں جن کی کافی حد تک مشابہت مزاحیہ اداکار مسٹر بین سے ہوتی ہے۔ اور عوامی سطح پر اس جیسی حرکات کا مزاج رکھتے ہیں۔
لیکن، جیسے ہی ملک میں دہشت اور تشدد کا عنصر بڑھا اور سال 2014 میں پشاور میں ماہ دسمبر کے دوران طالبان کی جانب سے قتل عام میں 149 افراد بشمول 132 بچے نشانہ بنے، وہ خاص طور پر دہشت گردی کے عروج کا وقت تھا۔ لیکن چوہدری نثار کے بیانات ریاست کی غیرواضح سوچ کی علامت تھے۔ ایک مقام پر انہوں نے اعلان کیا کہ کافی زیادہ روٹیاں لینے والے شخص کا دہشت گردانہ سرگرمی میں ملوث ہونے کا اشارہ ملتا ہے اور کہیں بھی ایسی سرگرمی پر پولیس کو بروقت اطلاع دی جائے۔
چوہدری نثار نے یہ بھی کہا کہ دوبارہ تصدیقی عمل آنے والی لاگت لوگ برداشت کریں گے کیونکہ نادرا کی جانب سے دوبارہ تصدیق پر 15 روپے فی گھرانے سے چارج کئے جائیں گے اور یہ عمل چھ ماہ کے اندر مکمل کرلیا جائے گا۔ اس کے بعد قومی شناختی ڈیٹا بیس ایک بار پھر محفوظ ہوجائے گا۔ اسکے بجائے ، بہت سے پاکستانی نادرا کے نظام میں پھنس کر رہ گئے اور وہ اپنے ہی ملک سے وابستگی کا ثبوت دینے پر مجبور ہوگئے۔ بعد ازاں، ایک خاتون نے پورے 11 سال بعد اپنے بلاک شدہ کارڈ کی بحالی پر پورے علاقے دعوت کا اہتمام کیا۔ تاہم ، کچھ لوگ ابھی بھی اپنے شناختی کارڈ کی بحالی کے منتظر ہیں۔
گلزار بی بی کو اپنے خاندان کے شناختی کارڈز کو بحال کرانے میں چار ماہ لگ گئے اور یہ عمل انکی ذہن میں ناگہانی خوف کا مستقل احساس چھوڑ گیا۔ کچھ ماہ قبل، انہوں نے دیکھا کہ انکی بیٹی ریزہ گل اور انکا بھائی کونے میں تیز لہجے میں کانا پھوسی کررہے ہیں۔ وہ گلزار بی بی کی لاعلمی میں ریزہ گل کے لئے پاسپورٹ کے حصول کے لئے نادرا آفس گئے تھے۔ جب وہاں حکام نے انکی والدہ کی جائے پیدائش سے متعلق پوچھا تو ریزہ گل نے غلط جواب دیا جس سے خدشہ پیدا ہوا کہ انکے خاندان کے تمام شناختی کارڈز دوبارہ بلاک کردیئے گئے۔
گلزار بی بی نے بتایا، “جب انہوں نے مجھے یہ بتایا ، اللہ کی قسم! میرا دماغ گھوم گیا۔ میرے منہ سے گالیاں نکلنے لگی۔” گلزار بی بی نے کہا، “میں نے تمام دستاویزات سنبھالیں، انہیں پلاسٹک کے بیگ میں ڈالا اور سیدھی نادرا کے آفیسر کے پاس پہنچ گئی۔ میں نے سارے کارڈز انکے سامنے رکھے، اور کہا کہ سنو! اگر آپ اسے پاسپورٹ جاری کرنا نہیں چاہتے تو مت کرو لیکن تمھیں ہمارے شناختی کارڈز بلاک کرنے کی ہمت کیسے ہوئی؟ انہیں ابھی فورا بحال کرو ، یا ، پھر میں اس آفس کی ہر کرسی توڑ دوں گی۔ وہ میرے غصہ سے اتنا خوف زدہ ہوا کہ اس نے معافی مانگنا شروع کردی اور التجا کرتے ہوئے کہا، ‘آپ میری والدہ کی جگہ ہیں۔’ جب تک کہ اس شخص نے انکے شناختی کارڈز کی بحالی کی تصدیق نہ کردی گلزار بی بی نے اسکی کوئی بات ماننے سے انکار کردیا۔
گلزار بی بی کی سب سے چھوٹی اولاد، بکھرے بالوں والی لمبے قد کی ایک کمزور بچی ، جسے ملبے پر چڑھنے کا شوق ہے۔ یہ ملبہ انکے گھر کی سرحد کا کام کرتا ہے اور وہ ایک تنہا ننھے سپاہی کی طرح شہر میں حالیہ بے دخلی کی کوششوں میں منہدم شدہ دیوار کی جگہ پھٹے پرانے نارنجی رنگ کے بچھے ترپال سے خوف کے عالم میں جھانکتی ہے ۔ جب اسکی والدہ بات کرنے کے لئے اسے پکارتی تھیں تو اس کا نام صحن کے چاروں طرف خاموشی سے گردش کرتا ہوا،مرغیوں کے درمیان سے ہوتا ہوا ، فضا میں تحلیل ہوجاتا اوروہ صحن کے کونے میں بیٹھی اپنی انگلیوں کو کپڑوں کے گرد گھماتی ہوئی اپنی دنیا میں مگن رہتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گلزار بی بی اپنی بیٹی کی طرف انہی جذبات سے دیکھتی جس طرح دنیا بھر میں مائیں اپنے بچوں کو دیکھتی ہیں اور یہ محبت کے اظہار کا ایک سادہ طریقہ ہے۔
گلزار بی بی اس کو سرکاری اسکول میں داخلہ نہیں کرواسکتی ۔ انہوں نے بتایا کہ نادرا حکام اسے ضروری دستاویزات کے اجراء سے انکار کررہے تھے کیونکہ یہ اولاد انکے شوہر کی وفات کے بعد پیدا ہوئی۔ نادرا کا ڈیٹا بیس اس افسوس ناک لیکن ناگزیر واقعہ کی حقیقت کوسسٹم کی خرابی کہہ کر خاموش کرادیتا ہے۔
گلزار بی بی سختی سے اپنے گرد شال لپیٹتے ہوئے بولیں، “مجھے نہیں معلوم کہ میں انہیں یہ بات کیسے بتاؤں کہ جب میرے شوہر کا انتقال ہوا تو اس وقت میں حمل سے تھی۔ آپ کو علم ہے کہ یہ خواتین کا مخصوص موضوع ہے۔”
کسی بھی سافٹ ویئر کی طرح، انسانوں کا تیارکردہ نادرا کا شناختی نظام بھی اپنی قائم کردہ حدود میں کام کرتا ہے۔ سافٹ ویئر میں پدرانہ ڈھانچے کی فراہمی کے ساتھ ساتھ جب کسی عورت کی شادی ہوتی ہے تو اس کا ریکارڈ والد کے شجرہ نسب سے نکل کر اسکے شوہر کے شجرہ نسب میں شامل ہوجاتا ہے۔ جب وہ اپنے سی این آئی سی کی تجدید کراتی ہے تو شناختی کارڈ میں والد کا نام کا حصہ تبدیل ہوکر زوجیت کا نام کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ (پاکستانی مردوں میں ریکارڈز کی ایسی نقل مکانی کی ضرورت نہیں پڑتی)۔ سال 2014 میں اس وقت نادرا کے سربراہ اور بایومیٹرک خدمات کے چیف معمار طارق ملک نے ایک دوسرا اصول واضح کیا جس کے تحت کسی بھی شخص کی عمر انکے والدین کی شادی کے دورانیہ سے کم ہوگی۔ اس سے یہ اصول متعین ہوجاتا ہے کہ کوئی بھی بچہ نکاح کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا ۔ ان اصولوں کو معاشرے میں ایسے دکھایا جاتا ہے کہ یہ نظام کا لازمی جزو ہیں لیکن یہ لوگوں کی خواہشات کا عکس ہوتے ہیں جو اس سوچ کی بنیاد پر جنم لیتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ ایسا نظر آنا چاہیئے، ناکہ وہ کیا ہوسکتا ہے اور کیا نظر آتا ہے۔
دنیا بھر کے محقیقین ڈیٹا بیس ڈیزائن کے پیچیدہ اور عمومی متضاد نتائج سامنے لارہے ہیں۔ مثال کے طور پر، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزینوں کا ڈیجیٹل شناختی نظام بھی خاندان کی بنیاد پر ہے لیکن نادرا کے برعکس اس میں سب سے پہلے اور سب سے معمر شخص کو گھرانے کے سربراہ کے طور پر رجسٹرڈ کیا جاتا ہے۔ اسکے مطابق، انہیں خاندان کی طرف سے سہولیات کے حصول کا حق حاصل ہے۔ عمان میں ڈیجیٹل شناخت کی محقق، ایمریس شومیکر نے واضح کیا کہ جنوبی سوڈان سے خاندانوں نے یوگنڈا میں پناہ لی تو عورتیں اور بچے سب سے پہلے فرار ہوئے۔ اپنے خاندانوں کی باضابطہ متعین سربراہ کے طور پر متعدد خواتین نے اپنے آپ کو نئے انداز سے بااختیار محسوس کیا۔ “وہ مختلف مالی فیصلے کرسکتی ہیں۔ وہ تعلیم میں سرمایہ کاری کرسکتی ہیں۔ لیکن انکے جیون ساتھی گھریلو وسائل کا کنٹرول خود نہ رکھنے پر زیادہ خوش نہیں ہیں۔ پناہ گزینوں کے تناظر میں گھریلو تشدد کا سلسلہ بڑھنے کی بظاہر یہ سب سے بڑی وجہ ہے۔”
نادرا کے معاملے میں متعدد مقدمات سے واضح ہوتا ہے کہ خود کار ڈیٹا بیس کی رکاوٹیں دراصل حقیقی زندگی کی مشکلات سے متصادم ہیں۔ چند سال قبل، حکام نے عروج تابانی کا سی این آئی سی بلاک کیا ، یہ ایک نوجوان خاتون ہیں جو سال 1993 میں پیدا ہوئیں۔ پیدائش کے وقت، عوامی سطح پر دستیاب عدالتی دستاویزات کے مطابق، عروج تابانی کی والدہ کی انکے والد سے چار سال شادی رہی ۔ ایک سال بعد، ایک شخص سامنے آیا جس نے دعویٰ کیا کہ وہ انکی والدہ کا شوہر ہے، اس نے الزام عائد کیا کہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہیں اور ان کے درمیان کبھی علیحدگی بھی نہیں ہوئی۔ اس وقت عروج تابانی کے والد نے نکاح کی منسوخی کا مقدمہ دائر کیا ، سالوں بعد جب عروج تابانی سال 2011 میں 18 سال کی ہوئیں اور انہوں نے خود ہی اپنا سی این آئی سی حاصل کیا ۔ انہوں نے نادرا حکام سے شکایت کی اور مطالبہ کیا انہیں اپنےوالد کے شجرہ نسب سے علیحدہ کیا جائے۔ حکام نے اس پر عمل کیا، حالانکہ انکی ولدیت کا کبھی تنازع نہیں رہا۔ نادرا کے ڈیٹا بیس کے قوانین کی منطق کے تحت اگر شادی منسوخ ہوئی ہوتی تو عروج تابانی کا وجود بھی ممکن نہ ہوتا۔
سال 2019 میں عروج تابانی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور مقدمہ جیت گئیں۔ عدالت نے نادرا اور انکے والد کو حکم دیا کہ وہ دونوں نقصان کے بدلے نصف ملین روپے کی ادائیگی کریں۔ لیکن سال 2018 میں 22 سالہ تطہیر فاطمہ کی قسمت اتنی اچھی نہ رہی۔ فاطمہ کا مطالبہ اسکے متضاد تھا۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرکے اپنی شناختی دستاویزات میں سے اپنے والد کا نام نکالنے کا مطالبہ کیا ۔ کیونکہ والد نے انکی پیدائش پر انہیں اکیلا چھوڑ دیا، بچوں کے اخراجات کی ادائیگی روک دی تھی ،جب کہ اس وقت وہ ننھی بچی تھیں ۔ انہوں نے سی این آئی سی یا پاسپورٹ کی اپنی درخواست کے لئے تعاون سے انکار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ والد کی شناخت ان سے کیوں منسلک ہونی چاہیئے؟ اسکے بجائے وہ چاہتی تھیں کہ انہیں ‘بنت پاکستان’ یعنی قوم کی بیٹی کے نام سے جانا جائے۔
گزشتہ سالوں میں نادرا نے ایسے مخصوص طبقوں کے لئے سہولیات رکھی ہیں جو روایتی خاندان کے تصور پر پورا نہیں اترتے۔ سال 2014 میں تین سالہ عدالتی جدوجہد کے بعد یتیموں کے لئے “والدین” کی تعریف میں نرمی ہوئی جس میں یتیم کے سرپرست کو بچے کا قانونی سرپرست بننے کی اجازت ملی ۔ سال 2017 میں قانونی چارہ گوئیوں کی وجہ سے ہاتھ بندھنے کے نتیجے میں نادرا نے خواجہ سرا (تیسری جنس) کمیونٹی سے متعلق اپنی پالیسی واضح کی۔ اسکی بدولت، خواجہ سرا کے سی این آئی سی پر والدین کی جگہ گرو یا انکے کمیونٹی رہنما کا نام رکھنے کی اجازت دی گئی۔ چند سال قبل، یہ طبقہ نادرا حکام سے صف آراء تھا لیکن اب اس نے اپنے سی این آئی سی پر تیسری جنس کے طور پر اپنے ممبرز کی ذاتی شناخت کا حق جیت لیا اور حکام کی ابتدائی تجاویز کو مسترد کردیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ اپنی شناخت کے لئے درخواست گزاروں کو طبی معائنہ سے گزرنا ہوگا تاکہ وہ عملی طور پر جنس سے متعلق اپنا موقف ثابت کرسکیں۔
تاہم، فاطمہ کے کیس میں عدالت نے نفی کرتے ہوئے روایتی راستہ اختیار کیا۔ عدالت میں سماعت کے دوران نادرا نے احتجاج کیا اور اپنے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ نئے سافٹ ویئر کی تنصیب کے بغیر ولدیت کے خانہ کو خالی چھوڑا نہیں جاسکتا ، جس کے بعد عدالت نے فاطمہ کی درخواست مکمل طور پر مسترد کردی۔ ولدیت کے نام کے اخراج کا حکم شریعت اور پاکستان کے آئین دونوں کے خلاف ہے ۔ ایسا کرنے سے ایک ذیلی بنیادی سوال سامنے آیا: شہریت کے لئے ولدیت کیوں لازم ہے؟
اور اگر کسی کا کوئی والد ہی نہ ہو؟ 2000 کی دہائی کے اواخر میں برطانوی نژاد پاکستانی خاتون اپنی پانچ سالہ بیٹی کے ہمراہ اسلام آباد منتقل ہوئیں۔ یہ بچی برطانیہ میں اسپرم ڈونر کے ذریعے حمل سے پیدا ہوئی، یہ طریقہ پاکستان میں فی الوقت جائز نہیں ہے۔ جب خاتون نے اپنی بچی کے ‘ب ‘فارم کے لئے رجوع کیا تو نادرا حکام الجھن کا شکار ہوگئے۔ ان کا سسٹم بنیادی طور پر والد کے بغیر بچہ کی موجودگی کو عملا قبول نہیں کرتا۔ خاتون کی اب کوئی خواہش نہیں ہے کہ وہ قانونی جنگ میں پڑیں، انکی بیٹی اب 12 سال کی ہوچکی ہے، اس لئے انہوں نے پاکستان میں قیام کے لئے ویزا کی توسیع جاری رکھنے کے راستے کا انتخاب کیا۔ اس سے انہیں معاشرے میں بااثر حیثیت رکھنے میں بھی مدد ملی ، تاہم اسکا مطلب ہے کہ وہ سرکاری خدمات حاصل کرنے کے بجائے متبادل نجی خدمات پر انحصار کرسکتی ہیں اور انکی بیٹی کے پاس صرف برطانوی شہریت رکھنے کی سہولت ہی میسر ہے ۔ ان کے لئے سی این آئی سی کا مسئلہ محض ابہام کا شکار ہے جس کا حل نکالنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی زینے میں ایک قدمچے کی کمی ہو۔
کیمبرج یونیورسٹی کی ماہر جغرافیہ دان، عائشہ صدیقی کا کہنا ہے، “پاکستان میں شہریت کا تصور مغالطہ پر مبنی ہے، حقیقت میں یہ اتنا غیر واضح ہے کہ اردو میں ایسا کوئی دوسرا لفظ نہیں جو اسکی مناسب انداز سے وضاحت کرے۔”عام طور پر زیر استعمال لفظ ‘شہری’ دراصل رہائشی کے معنوں میں زیادہ قریب ہے۔ سال 2012 میں عائشہ صدیقی نے ملک میں تباہ کن سیلابوں کے تناظر میں تحقیقات کا آغاز کیا۔ پچھلے دو سالوں کے دوران شدید مون سون نے دریائے سندھ کے بند توڑ دیئے اور پاکستان کے کل زمینی رقبے کا پانچواں حصہ زیر آب آگیا۔ تقریبا 2 ہزار افراد کی ہلاکت ہوئی اور تقریبا 2 کروڑ افراد اپنے گھروں اور آمدن سے محروم ہوگئے۔
پاکستان طویل عرصے سے بین الاقوامی امداد پر انحصار کرتا آرہا ہے ، لیکن اس بار اسے اپنے سماجی تحفظ کے ذرائع پر انحصار کرنا پڑا۔ اگرچہ اقوام متحدہ نے ان سیلابوں کے اثرات کو حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا امدادی بحران قرار دیا لیکن عالمی سطح پر ردعمل قابل ذکر نہ آیا اور صورتحال پر گہری نگاہ رکھنے والوں کو حیرانی ہوئی کہ کیا ہلاکتوں کی نسبتا َکم تعداد رہی، اور کیا زلزلوں اور سونامی کے باعث تباہ کاریوں کے مناظر کے برعکس یہ کم شدت کے مناظر تھے، یا پھر دیگر ممالک پاکستان کو مسلسل امداد دیتے دیتے تھک چکے تھے یا پھر کیا عالمی لاتعلقی کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان ہمیشہ سے مسائل کا شکار ہی رہا ؟۔
نادرا نے سیلاب سے متاثرہ افراد کی نشاندہی اور انہیں مدد فراہم کرنے کیلئے بایو میٹرک ڈیٹا بیس کو بروئے کار لاتے ہوئے قدم بڑھائے۔ حکام نے سیلاب زدہ علاقوں کا اندراج شروع کیا اور ضروری سامان سے آراستہ متعدد گاڑیاں روانہ کیں تا کہ وہ لوگ جن کے شناختی کارڈ پانی میں بہہ گئے ہیں ان کے دوبارہ فنگر پرنٹس لئے جاسکیں ۔ سات لاکھ کارڈز دوبارہ جاری کئے گئے اور تقریبا 3 ملین خاندانوں میں 77 ارب روپے تقسیم کئے گئے۔ بہت سے لوگوں نے کبھی بینک اکاؤنٹس نہیں کھلوائے تھے، اس لئے نادرا نے حکومت کی طرف سے انکے اکاؤنٹ کھلواکر انہیں عارضی طور پر کیش نکلوانے کے لئے اے ٹی ایم کارڈز جاری کئے۔
عائشہ صدیقی بتاتی ہیں کہ انہوں نے جو دیکھا وہ ‘تباہ کن شہریت’ کی ایک بہترین مثال تھی جس نے بحران کے تناظر میں ریاست اور شہریوں کے درمیان سماجی معاہدے کو مضبوط کیا۔ انہوں نے بتایا، “یہ بیشتر لوگوں کی زندگیوں میں پہلا موقع تھا جب وہ محض ایک شہری کے طور پر خصوصی سلوک کے حقدار ٹہرے ، اس لئے نہیں کہ انہیں کسی کی سرپرستی حاصل تھی یا اس جیسی کوئی دوسری چیز تھی۔” انہوں نے مجھے بتایا، “ریاست نے ان لوگوں تک پہنچنے کے لئے انتہائی پیچیدہ انداز سے رسائی حاصل کی۔ جن لوگوں کے ساتھ میں وقت گزار رہی تھی، وہ ریاست کی توجہ حاصل کرنا چاہتے تھے اور اس طرح بعض طریقوں سے انہیں نادرا کارڈز فراہم کئے جارہے تھے۔”
آہستہ آہستہ ، اور ، کم از کم جزوی طور پر ، نادرا کے منصوبوں کے نفاذ سے شہریت کا تصور مادی فائدوں سے مستحکم ہورہا تھا۔ عائشہ صدیقی نے کہا، “اسکی حدود میں نرمی لانے سے ممکنہ تبدیلی بڑی خطرناک ہوگی ۔ سال 2013 میں جب زلزلے سے بلوچستان میں 800 افراد کی ہلاکت ہوئی تو ان تک رسائی حاصل کرنے والے اولین افراد میں نادرا حکام شامل تھے، اسکی سادہ سی وجہ یہ تھی کہ اس خطے میں انکے دفاتر اور گاڑیاں موجود تھی۔ ان اضلاع میں رہائش پذیر بعض پاکستانیوں کے لئے حکومت کا کوئی دوسرا سراغ نہ تھا، یہاں تک کہ پوسٹ آفس یا پولیس اسٹیشن بھی نہیں تھے۔ ریاست کے ساتھ ان کا پہلا سامنا شائد فوج کے بعد نادرا کے ذریعے تھا۔
نادرا کی جانب سے بہترین مساوات کا روشن وعدہ اسکی حالیہ تشہیری ویڈیو میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ ایک خاتون سروس سینٹر میں داخل ہوتی ہیں اور نادرا حکام کے سامنے بیٹھ جاتی ہیں۔ وہ ایک لینس میں دیکھتی ہیں، پھر بایو میٹرک ڈیوائس پر ایک ایک کرکے اپنی انگلیاں فنگرٹپس کے لئے دباتی ہیں۔ ہاتھ میں رجسٹریشن فارم کے ساتھ باہر جاتے ہوئے انکے سر میں فخریہ خم آتا ہے اور وہ مسکراتی ہیں۔ پس منظر میں ایک گنگناتی سی آواز آتی ہے، “میرے پاس میرا اپنا قومی شناخی کارڈ ہوگا۔ میں ہر قدم فخر سے اٹھاؤں گی۔” اسکرین پر دیگر خواتین نمودار ہوتی ہیں: مائیں، بیگمات اور بیوائیں، خواجہ سرا اور ویل چیئرز پر خواتین۔ “یہ کارڈ میری عزت ہوگا۔” وہ بینکوں اور اسپتالوں میں جاتی ہیں، کالج میں اندراج کراتی ہیں، ووٹ ڈال سکتی ہیں اور انگوٹھوں پر تازہ سیاہی ہوگی، سب کا چہرہ دمکتا ہے۔ “ہمیں لازمی اپنی قومی ذمہ داری ادا کرنی ہے اور قومی شناختی کارڈ حاصل کرنا ہے۔”
حارث گزدار نے کہا، “میں اس بات کا مشورہ نہیں دیتا کہ بالکل ہپی قوم کی طرح الگ تھلگ رہیں۔ بیشتر لوگ اصل میں الگ تھلگ رہنا چاہتے ہیں لیکن وہ نظام کے اندر موجود سہولیات بھی چاہتے ہیں۔ وہ ووٹ ڈالنا چاہیں گے ، اپنے بچوں کو باقاعدہ اسکول بھیجنا چاہیں گے، اپنے بینک اکاؤنٹس اور موبائل فونز کے استعمال سمیت ایسی دیگر بہت سی سہولیات حاصل کرنا چاہیں گے۔ اور ہر چیز کے لئے نظام کا حصہ بننا ضروری ہے۔ جیسے قومی شناختی کارڈ اس نظام سے جوڑتا ہے اور لوگ اسکی رسائی بھی چاہتے ہیں۔”
حارث گزدار کا خیال ہے کہ نادرا ایک ناگزیر ادارہ ہے اور اگر ریاست یہ کام خود نہ بھی کرتی تو یہ ایسا کام ہے کہ جسے مارکیٹ کوئی دوسرا بھی یہ کام کرتا۔ ان کی تشویش یہ ہے کہ یہ کس طرح مزید شمولیت کا حامل ہوسکتا ہے اور تشہیری ویڈیو کے ٹیکنالوجیکل مثالی معاشرے کی خیرسگالی کے کس طرح زیادہ نزدیک ہوسکتا ہے۔ “اب ہمارے پاس ایسی چیز ہے جو انتہائی اہم اور طاقتور ہے، ہم کس طرح اسے استعمال کررہے ہیں؟ انہوں نے استفسار کیا، “اس میں بہت سارے لوگ باہر کیوں ہیں؟، ایسا کس طرح ممکن ہے کہ بہت سارے لوگوں کے متنازع دعوے ہیں؟ جب غلطیاں وقوع پذیر ہوجاتی ہیں تو پھر ہم لوگوں کے لئے زندگی کیوں مشکل بنا رہے ہیں؟”
انتہائی ڈرا دینے والے واقعات میں عام افراد کو نادرا کے نظام سے باہر رکھا گیا ، جو دراصل بیوروکریسی کی جانب سے رکاوٹ کی پرانی و عالمی سوچ ہے لیکن ریاست اور افراد کے درمیان بیشتر دیگر واقعات میں کم از کم کوئی حل ضرور ہوتا ہے۔ حارث گزدار نے بتایا، “پولیس کے پاس مجھے گرفتار کرنے کا اختیار ہے اور مجھے اس پر احتجاج کا حق ہے۔ یہ طریقہ کار واضح ہے ، چاہے انکی اکثر خلاف ورزی ہو۔ نادرا کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ انتہائی تیزی سے اپنی جگہ بنائی اور اتنے سارے علاقوں میں یہ قدم جما چکا ہے بالکل اسی طرح جیسے ہم ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں ، ورنہ یہ گفتگو کبھی نہ ہوتی۔”
جب ڈیجیٹل حقوق کی رہنما نگہت داد پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کی طرف جارہی تھی تو انہوں نے محسوس کیا کہ سڑکوں پر جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں جو آنے جانے والوں کی ریکارڈنگ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، “یہ واقعی کافی جھنجلانے والی چیز ہے، تصویر لینے کیلئے اچانک سے فلیش چمکتا ہے، اگر آپ گاڑی چلا رہے ہیں تو یہ حفاظتی طور پر خطرناک ہوسکتا ہے۔ لوگ اکثر فلیش لائٹ کی شکایت کرتے ہیں لیکن میں نے کبھی کسی سے نہیں سنا کہ کوئی پوچھے کہ اصل میں کیا ریکارڈ ہورہا ہے ، اس تمام ڈیٹا کو کہاں پروسیس کیا جاتا ہے، کن لوگوں کی اس ڈیٹا تک رسائی ہے اور یہ ڈیٹا کب ختم کیا جائے گا۔ یہ تمام سوالات میرے ذہن میں آئے ، لیکن ایک عام آدمی اس حد تک نہیں سوچے گا۔ ان کو ہمیشہ یہی بتایا گیا ہوتا ہے کہ یہ نظام ان کی زیادہ حفاظت کیلئے لگایا گیا ہے۔
لاہور شہر بھر میں 2 ہزار مقامات پر کم از کم 10 ہزار سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں جن میں مبینہ طور پر نصف کیمرے کام ہی نہیں کرتے۔ یہ کیمرے لاہور سیف سٹی پراجیکٹ کا حصہ ہیں جو نادرا کے ڈیٹا بیس سے منسلک ہیں اور پاکستان کے شہروں میں اس سسٹم کو متعارف کرایا جارہا ہے ۔ بیشتر کیمرے چینی کمپنی ہواوے کے اشتراک سے لگائے گئے ہیں۔ (واشنگٹن ڈی سی میں قائم سینٹر آف سٹریٹیجک اور انٹرنیشنل اسٹڈیز کی تحقیق کی مطابق پاکستان نے ہواوے کمپنی سے اس نوعیت کے مزید معاہدوں پر دستخط کئے ہوئے جو کسی بھی ملک کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔)
سیف سٹی پراجیکٹ نے 2019 میں سب سے پہلے گاڑی میں جوڑوں کی غیراخلاقی تصاویر منظر عام پر لاکر تحقیقات کے لئے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ، یہ تصاویر سوشل میڈیا پر لیک ہو ئیں جن میں گاڑی کی نمبر پلیٹس واضح نظر آرہی تھیں۔
رواں سال کے اوائل میں کیلی فورنیا کی ایک فرم نے لاہور پروجیکٹ کے لئے ٹیکنالوجی سازی کے ذیلی معاہدہ سے متعلق امریکی وفاقی عدالت میں ہواوے پر مقدمہ دائر کیا جس میں الزام عائد کیا گیا کہ ہواوے نے اس پر چور راستے نکالنے کے لئے دباؤ ڈالا جس کی بدولت کمپنی کی قومی شناختی ریکارڈ سمیت حساس پاکستانی ڈیٹا تک رسائی حاصل ہوجاتی۔ ہواوے اس دعوے کی تردید کرتا ہے۔
سال 2012 میں، ایک ترک ہیکر نے چور راستے نکال کر نادرا کے سرورز سے رسائی حاصل کرنے کا دعویٰ کیا۔ سال 2014 میں انٹیلی جنس اطلاعات میں خبردار کیا گیا کہ حکومت کے تھرڈ پارٹی انحصار سے کافی حد تک ڈیٹا لیک ہورہا ہے جس کی بیشتر ذمہ دار دار فرانس، جرمنی، سویڈن اور چین میں قائم کمپنیاں ہیں۔گزشتہ سال موسم سرما میں، 10 کروڑ سے زائد پاکستانیوں کے نام، پتے اور سی این آئی سی نمبرز آن لائن فروخت کے لئے دستیاب تھے لیکن دونوں ادارے ، وزارت داخلہ اور نادرا نے اس غفلت کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا۔
ڈیجیٹل حقوق کے سرگرم افراد کے لئے عام افراد کے ڈیٹا پر سمجھوتے کے اثرات کی وضاحت اکثر مشکل کام ہوتی ہے۔ یہ خطرات اکثر غیرواضح اور بعد از قیاس نظر آتے ہیں۔ لیکن، پاکستان میں یہ خطرات حقیقی اور ٹھوس ہیں۔ گزشتہ سال، 15 سالہ لڑکی اپنی والدہ کے ہمراہ امدادی رقم کی وصولی کے لئے سرکاری فلاحی ادارہ کے دفتر گئی۔ ایک ملازم نے اسکے ریکارڈز میں موجود فون نمبر استعمال کرکے اسے ہراساں کیا، پھر وہ ان کے گھر پہنچ گیا اور لڑکی کا ریپ کردیا۔ کچھ ماہ بعد، ایک دوسرے واقعے میں خاتون کو فون پر ہراساں کرنے پر نادرا کے ملازم کو گرفتار کیا گیا۔ اس ملازم نے خاتون کا نمبر ڈیٹا بیس سے نکالا تھا۔
رواں سال، موسم گرما میں طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا اور امریکی فوج کا پیچھے چھوڑا ہوا سامان بشمول فوجی بایو میٹرک ڈیوائسز اور امریکی فنڈ سے چلنے والے افغان حکومت کے ڈیٹا بیس سمیت بہت ساری چیزوں پر کنٹرول حاصل کرلیا اور یہ پاکستان کے لئے پریشانی کا ایک نیا پہلو تھا۔ اگر پاکستانی ڈیٹا کسی بھی مرحلے پر غلط ہاتھوں میں چلا جاتا ہے تو مستقبل میں کیا ہوگا؟
نگہت داد نے استفسار کیا، “اگر امریکہ کو علم نہیں تھا کہ افغان شہریوں کے خلاف ٹیکنالوجی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے تو کیا آپ واقعی سمجھتے ہیں کہ ہم نے بھی یہ سوچا ہے؟۔” انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جب نئی ٹیکنالوجیز متعارف ہوتی ہیں تو انہیں ہمیشہ مثبت انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ یہ قومی سلامتی اور معاشی ترقی کے لئے اہم ہیں۔ “لیکن ہمیں اسکے منفی اثرات پر تبادلہ خیال کی کبھی اجازت نہیں ملی۔ اگر آپ اس پر اظہار کا موقع نہیں دیتے تو آپ اسکے ممکنہ غلط استعمال بھی کو کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور آپ اسکے اثرات سے نمٹنے کے لئے تیار بھی نہیں ہوں گے۔”
نگہت داد نے کچھ وقفہ لیا۔ گزشتہ سالوں میں ٹیکنالوجی کےعلمبردار اپنی کافی ساکھ کھوچکے ہیں جبکہ انکے برعکس خیال رکھنے والے افراد اپنے نکتہ نظر کا دوبارہ جائزہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ “ابتدا میں ہم نے بایومیٹرک ڈیٹا بیس کی مخالفت میں نہایت کھل کر اظہار کیا لیکن اب وسیع ڈیجیٹل دور میں آپکو اپنی ناگزیر شناخت سے دستبردار ہونا پڑتا ہے ۔ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ٹھیک ہے، بایو میٹرک ڈیٹا درست ہے لیکن اسکی حفاظت کا نظام کدھر ہے؟”
انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں ڈیٹا کے نظام کو تحفظ دینے کا ابھی بھی کوئی قانون نہیں ہے۔ اس سے متعلق بل ابھی بھی زیر غور ہے۔ اس بل میں پہلی بار یاددہانی میں سرکاری اداروں کو اس کے اندر موجود شرائط سے مستثنی قرار دیا گیا تھا۔ نگہت داد نے کہا، “قانون کے بغیر ایسا کوئی راستہ نہیں جس سے کسی کا احتساب کیا جا سکے۔ ہمارے پاس اس وقت ایسا کوئی قانونی راستہ نہیں ہے جس کے تحت سیف سٹی کے ایڈمنسٹرز، ٹیلی کام کمپنیوں اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے اداروں یا کوئی بھی ایسے سرکاری اور نجی اداروں کا کوئی احتساب نہیں کرسکے جن کے پاس ہمارا ڈیٹا ہے۔”
سال 2016 میں پاکستان نے الیکٹرانک جرائم کے تحفظ کا قانون منظور کیا، یہ ایک متنازع قانون ہے جس میں بظاہر آن لائن ہراسگی اور دہشت گردانہ سرگرمی سے نبرد آزمائی کا عزم ہے۔ اس کے بجائے، اس نے اظہار رائے اور رازداری کے تصور کو شدید نقصان پہنچایا ۔ اس سلسلے میں مخالفانہ نکتہ نظر رکھنے والے صحافیوں اور بلاگروں پر اس قانون کے تحت کثرت سے فرد جرم عائد کی گئیں جبکہ ریاستی ایجنسیوں کے پاس قبل از وقت وارنٹ کے بغیر رئیل ٹائم میں ڈیٹا کی وصولی اور اسے محفوظ کرنے کا بھی اختیار ہے۔
فرحت اللہ بابر نے کہا، “ہم دنیا میں واحد ملک ہیں جس نے ایسا قانون منظور کیا اور ہمارے پاس ابھی تک ڈیٹا کی حفاظت کے کوئی انتظامات نہیں ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ریاستی ایجنسیاں مکمل آزادی سے آپ کے ڈیٹا کے ساتھ گڑبڑ کرسکتی ہیں۔”
اسکی ایک مثال سال 2017 کا عدالتی فیصلہ ہے۔ انٹرنیٹ پر مبینہ توہین آمیز مواد کے پھیلاؤ کے ایک کیس کی سماعت کے دوران ہائی کورٹ کے ایک جج نے نادرا کو احمدیوں کا ڈیٹا بیس برقرار رکھنے کا حکم دیا۔ جبر کا نشانہ بننے والے یہ اقلیتی فرقہ پاکستان میں بطور مسلمان شناخت سے آئینی طور پر محروم ہے۔ اس ڈیٹا بیس کا واضح مقصد یہ تھا کہ احمدیوں کے لئے سرکاری عہدہ سنبھالنے کی روک ٹوک کو یقینی بنایا جائے۔ عدالت نے نادرا کو یہ حکم بھی دیا کہ وہ ان افراد کی تفصیلات فراہم کرے جنہوں نے باضابطہ اسلام کو ترک کیا اور دیگر مذہب کی قبولیت سے متعلق باضابطہ تبدیلی کرائی، یہ پاکستان میں ممکنہ طور پر جان لیوا ممنوع موضوع ہے، حالانکہ ملک میں ارتداد کے خلاف کوئی باضابطہ قانون بھی نہیں ہے۔
رواں سال کے اوائل میں، انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نادرا کو حکم دیا کہ پشتونوں کے سول حقوق کے رہنما منظور پشتین اور محسن داوڑ کے شناختی کارڈز بلاک کئے جائیں، حالانکہ بعد الذکر صاحب موجود پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔ منظور پشتین اور محسن داوڑ پر کراچی میں سول حقوق کی ریلی سے خطاب کے دوران غداری کے لئے اکسانے کا الزام عائد کیا گیا اور جب یہ فروری میں عدالت کے سامنے پیش نہ ہوسکے تو انہیں مفرور قرار دے دیا گیا۔ اسکے ردعمل میں عدالت نے حکم دیا کہ انکے شناختی کارڈز کو بلاک کیا جائے۔ اس حکم سے نگہت داد، فرحت اللہ بابر اور دیگر افراد میں تشویش کی لہر دوڑ گئے۔ دیگر بلاک شدہ سی این آئی سی کے برعکس جنہیں تکنیکی یا انتظامی غلطی قرار دیا جاسکتا ہے، یہاں یہ ایک واضح مثال ہے کہ یہ نظام واضح نشاندہی کے ساتھ مخصوص افراد کے خلاف تادیبی کارروائی کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ۔
پچھلے دو سالوں سے بلوچستان کے سابق سینیٹر حافظ حمد اللہ اپنے منسوخ شدہ شناختی کارڈ کا مقدمہ عدالت میں لڑ رہے ہیں۔ نادرا کا کہنا ہے کہ ان کے کارڈ کو ڈیجیٹل طور پر ضبط کیا گیا ہے کیونکہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کا دعویٰ ہے کہ حافظ حمداللہ افغانی ہیں۔ تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے واضح کیا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں کہ وہ پاکستان میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ ان کی موجودہ پاکستانی دستاویزات سے ان کی زندگی کی قابل ذکر خدمات سامنے آتی ہیں اور پاکستانی قانون کے مطابق اکیلی یہی بات ہی ان کے پاکستانی شہری ہونے کو ثابت کرتی ہے۔ عدالت نے 29 صفحات پر مشتمل اپنے تفصیلی فیصلے میں یہ بات واضح کی کہ نادرا کے پاس کسی کی شہریت کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔ ان کا کام یہ ہے کہ اہل افراد کی شناختی دستاویزات تیار کرے۔ نادرا نے پچھلی کئی دہائیوں سے جو شناختی کارڈ بلاک کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور جس کے باعث لوگوں کے مقدمات سالوں تک نظرثانی کیلئے لٹکے ہوئے ہیں، وہ سراسر غیر قانونی ہے۔
اسی طرح، محسن داوڑ کا سی این آئی سی ابھی تک بلاک ہے اور حافظ حمد اللہ کے حق میں فیصلے کو کسی بھی وقت سپریم کورٹ کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ اس وقت یہ نظام حیران کن تضادات سے بھرا پڑا ہے۔
سال 2021 کے اندر ، نادرا میں اپنے ماضی کی واضح جھلک کا احساس ہوا۔ اسکے چیئرپرسن کے طور پر طارق ملک پچھلی بار تعیناتی کے دوران نادرا کے اختیارات اور اثر و رسوخ میں بڑے پیمانے پر توسیع لائےتھے ، وہ اب اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام میں چیف ٹیکنیکل ایڈوائزر کے طور پر خدمات سرانجام دینےکے بعد نادرا میں واپس آگئے ہیں۔ نادرا کی دوبارہ ذمہ داری سنبھالنے کے بعد انہوں نے جو اولین کام کئے ان میں سے ایک کام جعل سازی سے کارڈز کی تیاری میں سہولت فراہم کرنے پر نادرا کے 47 ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کیا۔ شناخت کی دوبارہ تصدیقی مہم جاری رکھنے کے ساتھ نادرا لوگوں سے التجا کررہا ہے کہ وہ اپنے اپنے شجرہ نسب میں شامل اجنبی اور نامعلوم افراد کی تصدیق کرکے انکی نشاندہی کریں۔
جیسا کہ افغانستان میں طالبان نے قبضہ کرلیا ہے تو پاکستان پر پناہ گزینوں کا دباؤ بڑھ رہا ہے اور ایک پرانی بحث کو دوبارہ بھڑکایا جارہا ہے۔ افغان آبادی کے لئے پاکستان کی کیا ذمہ داریاں ہیں جبکہ ان میں سے متعدد افراد کے پاس کسی طرح کی رہائش یا گھر بھی نہیں ہے؟ پاکستان میں غیرملکی شہریوں کے لئے نئی شناخت کے منصوبوں پر کام جاری ہے جن کی بدولت انہیں دیگر بینکوں میں اکاؤنٹس کھلوانے کی سہولت میسر ہوگی اور وہ کاروبار کرسکیں گے۔ اگرچہ، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے لوگوں کی افغان سرحد سے آمد و رفت پر سخت رکاوٹیں لگائی ہوئی ہیں۔
گلزار بی بی کا داماد ایک افغان پناہ گزیں ہے۔ وہ اپنا گزر بسر اسلام آباد میں ٹیکسی چلا کر کرتا ہے۔ شادی کے ایک سال بعد ، وہ اور اس کا خاندان افغانستان میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے گیا ۔ اس کی بیوی ریزہ گل بھی ساتھ گئی۔ گلزار بی بی نے بتایا، “میں نے اسے سمجھایا کہ اسے لے کر مت جائے۔ میں اسی شرط پر شادی کیلئے راضی ہوئی تھی کہ وہ شادی کے بعد وہ یہیں، میرے قریب رہے گی۔” پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد ڈیورنڈ لائن تاریخی طور پر انتہائی مشکل خطے سے بھرپور رہی ہے،جو پشتون خاندانوں ، تاجروں، اور لڑاکوں کو آزادانہ آنے جانے کی اجازت دیتی ہے۔ لیکن جون 2016 میں ان کے افغان دورے کے دوران پاکستان نے ایک نئی پالیسی متعارف کرائی جس کے مطابق پاکستان میں داخل ہونے والے تمام افغانیوں کے پاس کارآمد پاسپورٹ اور ویزا ضروری ہے۔ ریزہ گل افغانی نہیں تھی بلکہ اس کے پاس خود کو پاکستانی ثابت کرنے کا کوئی راستہ بھی نہ تھا، قانونی طور پر وہ کم عمر تھی، اس کے پاس کسی طرح کی سرکاری دستاویزات نہیں تھیں ، صرف ایک پاکستانی شناختی کارڈ تھا۔
گلزار اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتانے لگیں، “وہ وہاں پھنس گئی۔ وہ وہاں روتی تھی، میں یہاں روتی تھی۔ میں اس وقت بہت زیادہ روتی تھی ۔”
آخر کار، یہ جوڑا پاکستان واپس آنے میں کامیاب ہوگیا۔ پہلی چیز جو گلزار بی بی نے کی وہ یہ کہ اپنی بیٹی کو لیکر سیدھی نادرا آفس گئی تا کہ اسکی دستاویزات کے معاملے کو سلجھا سکے۔
ایک ابر آلود اتوار کو ، گلزار بی بی نے جھٹکتے ہوئے اپنے پاؤں بستر پر رکھے جو ابھی تک تپ رہے تھے۔ نادرا کی بے ضابطہ اور پیچیدہ بیوکریسی میں مسئلہ سلجھانے کیلئے انہوں نے پوری دوپہر کے دوران نادرا آفس کے کئی چکر لگائے۔ اسکے احاطے میں ہر بار وہی چیختا چلاتا مجمع ہوتا ایسے جیسے کسی غلط معاہدہ پر بحث ہورہی ہو ۔ گلزار بی بی نے کہا، “ایسا مرحلہ بھی آیا کہ جب میں نادرا آفس کے سامنے خود کو نذر آتش کرنے کے لئے تیار ہوگئی۔ ۔ یہ کارڈ! یا اللہ! وہ لوگ اس کارڈ کو قومی خزانہ کی طرح کسی سونے کی مانند سمجھتے ہیں ۔ مجھے بتائیں، کیا ہمیں اب جنت میں جانے کیلئے بھی شناختی کارڈ کی ضرورت ہوگی؟”